Aye Tahayyar Ishq
Author: Rafi Mustafa
زندہ کتابیں سلسلہ نمبر 83
اے تحیر عشق
سوانحی ناول، ڈاکٹر رفیع مصطفی
—
مجلد، قیمت: 500
—-
سندھ کی روایتی محبت، خلوص و کشادہ دلی کی غمازی کرتی ہوئی ایک خوبصورت تحریر……..
’’اے تحیر عشق‘‘ کا تانا بانا تقسیم ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرنے والوں کے گرد بنا گیا ہے۔ مصنف نے اس دور کے حالا ت اور لوگوں کی جدوجہد کو سیدھے سادے انداز میں بیان کیا ہے ۔ اس کے ساتھ دھیمے سلگتے عشق کی داستان بھی اپنا رنگ دکھاتی رہتی ہے اور پڑھنے والوں کو مجبور کرتی ہے کہ وہ اسے آخر تک پڑھے۔ اس داستان کا پس منظر ہمارا جانا پہچانا حیدرآباد سندھ ہے۔
ہری مرچ کے پکوڑے وہ لہسن اور مرچ کی چٹنی میں ڈبوکر کھاتے تو زبان پر مرچ کی دھار بیٹھ جاتی تھی، مگر مجال ہے کہ سی سی کریں۔ مرچ بھی وہ چھانٹ کر خریدتے تھے۔ ہرسبزی والے کے کیبن کے سامنے کھڑے ہوکر ایک مرچ اٹھاتے اور درمیان سے کتر کر زبان کی نوک پر گِھستے۔
“بھّیا، تمہاری مرچوں میں تو نام کو تیزی نہیں ہے،” وہ شکایت کرتے۔
“میاں جی، بس جیسی مرچیں آتی ہیں ویسی بیچ لیتے ہیں،” سبزی والا معذرت کرتا۔
“اگلی بار ذرا دیکھ کر تتیّا مرچ لانا،” کہہ کر وہ آگے بڑھ جاتے۔
تتیّا مرچ کی تلاش میں وہ پوری سبزی منڈی کھنگال دیتے تب جاکر ایسی مرچ ملتی جو ان کے معیار پر پوری اترتی تھی۔
٭
امی جان نے باورچی خانہ سنبھالا ہوا تھا۔ دادی امّاں ہروقت کسی نہ کسی کتر بیونت میں لگی رہتی تھیں۔ انہیں سینے پرونے اور طرح طرح کے کھانے پکانے کا شوق تھا۔ کچھ کھانے ایسے تھے جو ابّا میاں فرمائش کرکے دادی امّاں سے ہی پکواتے تھے، خصوصاً ان کے ہاتھ کے گلگلوں کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جہاں بارش کی پہلی پھوار پڑی گھر کے سارے افراد چارپائیوں کو انگن سے برآمدے میں منتقل کرنے میں مصروف ہوگئے اور دادی امّاں نے فوراًباورچی خانے میں گلگلوں کی کڑھائی چڑھادی۔
٭
غفور چاچا کو پینتالیس روپے مہینہ کی نوکری مل گئی۔ ا ±نہیں راشن شاپ کے برابر ہی ایک کمرہ دے دیا گیا جہاں انہوں نے اپنی ورک شاپ قائم کر لی۔ درمیان میں ایک بڑی سی ورک بینچ لگا دی، دیواروں میں کیلیں ٹھونک کر ہتھوڑے، آرے، رندے، بسولے، چھینیاں، اور نہ جانے کیا کیا الا بلا لٹکادیں۔ ان کی ورک شاپ تیار تھی۔ کالونی میں جسے بھی مدد کی ضرورت ہوتی وہ غفور چاچا کے پاس چلا جاتا اور وہ بڑی محبت سے ا ±س کا کام کرتے۔ اگر کسی کے گھر جاکر کچھ کام کرنا ہوتا تو فوراً اس کے ساتھ ہولیتے۔ کبھی کسی سے پیسے نہیں لئے، کہتے تھے کہ “مجھے تنخواہ کس بات کی ملتی ہے؟” اگر کبھی کسی نے زبردستی ا ±ن کی جیب میں دو چار روپے ڈالنے کی کوشش کی تو فوراً اپنی جیب پر ہتھیلی رکھ کر ڈانٹ دیتے تھے، “کیوں میاں، خواہ مخوا مجھے کیوں حرام کھانے پر مجبور کرتے ہو؟”
٭
سید صاحب کی دکان کیا تھی، پورا عجائب خانہ تھا۔ ا ±س دکان میں داخل ہوتے ہی مجھے ایچ۔جی۔ ویلز کا ناول ٹائم مشین یاد آ جاتا تھا جو میں نے اسکول لائبریری سے لے کر پڑھا تھا۔ اس ناول میں ٹائم مشین کا موجد مستقبل میں سفر کرتا ہے اور ایک عجیب سوسائٹی میں پہنچتا ہے جہاں انسانوں پر ایک بندر نما مخلوق کی حکومت ہے۔ ٹائم مشین کے موجد کے کمرے کی دیواریں بھی کلاکوں سے ڈھکی ہوئی تھیں۔ سید صاحب اپنی کرسی پر بیٹھے ہوئے، ایک آنکھ کے حلقے میں میگنی فائنگ گلاس فٹ کئے دن بھر ٹائم ٹریولر کی طرح گھڑیوں میں جھانکتے رہتے تھے۔ میں نے ان سے خاص طور پر کہا تھا کہ مجھے ایسی ٹائم پیس چاہیے جس کا الارم زور سے بولے۔ سید صاحب کہنے لگے، “میاں، اِس کا الارم سن کر تو قبر کے مردے بھی کلمہ پڑھتے ہوئے اٹھ بیٹھیں گے”۔
٭
جب میں نے سر اٹھا کر ارد گرد نگاہ ڈالی تو پتا چلا کہ غلام محمد بیراج تک پہنچ گیا ہوں جو جام شورو اور حیدرآباد کے درمیان تھا۔ سورج اس وقت ڈھل رہا تھا اور دھوپ کی تمازت میں کمی آئی تھی، مگر میں اب بھی پسینے میں شرابور تھا۔ میں المنظر کے لان میں ایک کرسی پر آکر تقریباً گر گیا۔ المنظر پل کے کنارے ایک چھوٹا سا آوٹ ڈور ریسٹورنٹ تھا جہاں لا ن میں کرسیاں اور میزیں لگی ہوئی تھیں۔ لوگ وہاں بیٹھ کر چائے پیتے اور دریا کا نظارہ کرتے تھے۔ سر شام ہی دن بھر کی تپش کے بعد ٹھنڈی ہوا چلنا شروع ہوجاتی تھی۔ دریا کے کنارے مچھیرے قطار میں بیٹھے ہوئے پلّا مچھلی تلتے تھے۔ جس طرح لاہور کے متعلق کہاوت ہے کہ جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ پیدا ہی نہیں ہوا اسی طرح حیدرآباد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جس نے دریا کے کنارے مچھیروں کی تلی ہوئی پلّا نہیں کھائی وہ حیدرآباد گیا ہی نہیں۔
Reviews
There are no reviews yet.