Digest kahaniyan Set
Author: RASHID ASHRAF
This set contains four volumes of Digest kahaniyan.
1)Digest kahaniyan 2)Digest kahaniyan Vol 2
3)Digest kahaniyan Vol 3 4)Digest kahaniyan Vol 4
اچانک اسے یوں لگا جیسے وہ پتہ اس کے گدگدی کر رہا ہو۔ وہ کسی انسانی ہاتھ کی طرح اس کی گردن پر سرسرا رہا تھا۔ مارکونی اپنا کام روک کر ہاتھ گردن کی طرف لے گیا اور اس نے اس نامعقول پتے کو جھٹک کر الگ کرنے کی کوشش کی۔
یکبارگی مارکونی پر ایک نامعلوم قسم کا خوف طاری ہوگیا۔ وہ پتہ اُس سے مزاحمت کر رہا تھا۔
اور ٹھیک اسی وقت ایک دوسرا پتہ اُس کی گردن پر سرسرانے لگا۔ ایسا لگتا تھا گویا یہ پتہ کوئی جیتا جاگتا جسم بن گیا ہو اور اس کی گردن پر رینگ رہا ہو۔ مارکونی گھبرا گیا اور اس نے دونوں پتوں کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنی گردن سے علیحدہ کرنے کی کوشش کی۔
مگر وہ دونوں پتے مارکونی کی کلائیوں میں لپٹ گئے، اور سانپوں کی طرح اس کی دونوں کلائیوں کو، بل کھا کھا کر، اپنی گرفت میں کسنے لگے۔
(وادی خاموش)
—-
مسز وائن پر غنودگی طاری تھی جب اس نے پچھلی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹنے کی آواز سنی۔
”افواہ ۔“اس نے دل ہی دل میں لیٹے ہوئے کہا۔” آخر ٹوٹ گیا نا! درخت کی شاخ اتنے زور سے ٹکرائی کہ ٹوٹ گیا۔ اب کل اس کو ٹھیک کر والوں گی۔“
لیکن نیم غنودگی کے عالم میں بھی مسز وائن یہ محسوس کیے بغیر نہ رہ سکی کہ کسی نے ٹوٹے ہوئے شیشے میں سے ہاتھ ڈال کرکھڑکی کی چٹخنی کھول دی ہے۔ مسز وائن ایک دم ہوشیار ہو گئی۔ اس کے دل میں خوف و دہشت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ وہ نہ تو کوئی جوان عورت تھی اور نہ مالدار۔ اسی لیے اسے کسی سے کوئی خطرہ نہیں تھا لیکن اس وقت وہ سہم گئی۔ اس نے واقعی کھڑکی کی چٹخنی کھلنے کی آواز سنی تھی۔ اچانک اسے چار دن پہلے پیش آنے والے واقعے کا خیال آیا۔ رالف بھی تو ایک بوڑھا اور بے ضرر انسان تھا۔
مسز وائن نے ڈرتے ڈرتے اپنی گردن کھڑکی طرف گھمائی۔ کمرے میں ہلکے نیلے رنگ کا زیرو پاور کا بلب چل رہا تھا۔ مسز وائن نے کھڑکی کی طرف دیکھا۔
منظراس قدرعجیب و غریب ، اتنا ناقابل یقین اور دل دہلا دینے والا تھا کہ مسز وائن ایک بھیانک چیخ مار کر بے ہوش ہو گئی۔
(مارتھا کیٹ)
—-
اور اچانک ہوون کی نگاہوں نے ایک عجیب و غریب چیز دیکھی۔
ندی کے اُتھلے پانی میں یک بیک ہلچل سی ہونے لگی، اور پھر اس میں سے چند بے حد خوف ناک قسم کے سانپ برآمد ہوئے۔ یہ بڑے انوکھے سانپ تھے۔ ہوون نے اپنی زندگی میں کبھی اس قسم کے سانپ نہیں دیکھے تھے۔ ان کا رنگ بھورا بھوراسا تھا۔ ان کے جسموں پر بڑے بڑے بال تھے اور ان کا پھن جسم کی جسامت سے زیادہ چوڑا نہیں تھا بلکہ اس کے مساوی ہی تھا۔ ان میں سے ہر سانپ تقریباً چار فٹ لمبا تھا اور اس کے جسم کی موٹائی کا قطر کسی طرح بھی دو انچ سے کم نہیں تھا۔ ہوون مبہوت ہو کر انھیں دیکھنے لگا۔ بڑا ڈراﺅنا منظر تھا۔ اس نے ان کو گنا۔ وہ تعداد میں آٹھ تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے پانی میں سے دو اور سانپ نکل آئے اور ان کی تعداد دس ہوگئی۔
(زندہ خلیے)
—–
وہ سبب اب اس کی سمجھ میں آرہا تھا۔ گولوں میں کوئی نامعلوم قسم کی برقی مقناطیسی قوت موجود تھی۔ چھوٹے گولوں میں یہ قوت کم تھی۔ اس لیے اس کا مظاہرہ بھی کمزور تھا لیکن جب دس گولوں نے مل کر ایک گولے کی شکل اختیار کرلی تو اُن کے اندر موجود برقی مقناطیسی قوت بھی بہت بڑھ گئی۔ پھر انہوں نے ایک اور جسم کو نگل لیا اور ان کی قوت مزید بڑھ گئی۔
اور اب وہ گولہ تیزی سے سڑک پر بھاگ رہا تھا۔
اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سوچنا ہی ٹونی کے لیے موت جیسے عذاب سے کم نہیں تھا۔ اس کے ہاتھ اسٹیرنگ پر بری طرح کانپنے لگے اور اس نے گاڑ ی ایک طرف کھڑی کردی۔ اگر وہ مزید ڈرائیو کرتا تو کوئی ایکسیڈنٹ ہوجانے کا خطرہ تھا۔
اگر اس گولے کو مزید جسم ملتے گئے تو یہ ان کو اسی طرح نگلتا جائے گا جس طرح اس نے مارش کے جسم کو نگل لیا ہے۔“ ٹونی نے سوچا ۔” اور اس کے ساتھ ہی اس کی قوت میں بھی اضافہ ہوتا جائے گا۔ اف میرے خدا میں کیا کروں؟“
(ری پلے)
(Digest kahaniyan Vol 2)
****************************************************************************************************************************************
زرد جنگل میں ہماری رفتار تیز نہیں ہوسکتی تھی۔ زمین بے حد دلدلی تھی اور جنگل گھنا تھا۔ اس سے پہلے کہ چھکڑا اس علاقے میں داخل ہوتا میں اپنا گھوڑا تیز دوڑا کر اس جگہ تک پہنچ گیا جہاں ہم نے چھکڑا چھوڑا تھا۔ کہیں کوئی نظر نہ آیا۔ البتہ جب میں جنگل کے کنارے پر پہنچا تو میں نے کسی کو ہلکے سے کھانستے ہوئے سنا۔ یہاں اندھیرا تھا۔ کیونکہ درخت آپس میں ملے ہوئے تھے اور مغرب کی طرف جھکتے ہوئے سورج کی کرنیں نیچے تک نہیں پہنچ پا رہی تھیں۔ میں نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر چاروں طرف دیکھا، لیکن کہیں بھی، کوئی بھی نظر نہ آیا۔ وہ آواز شاید میرا وہم تھی۔
یہ جگہ بڑی بھیانک تھی۔ اس حد تک بھیانک کہ مجھے کافروں کی وہ کہانی یاد آگئی جو اس علاقے کے متعلق ان میں مشہور تھی۔ انہیں یقین تھا کہ اس دلدل اور اس جنگل میں بھوت رہتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی مجھے وہ بات بھی یاد آگئی جو اسکومبے نے یہاں آتے وقت کہی تھی۔ اس نے کہا تھا اسے لگتا ہے کہ وہ یہاں کسی کی جان لے گا اور اس نے اپنی یہ پیشین گوئی ایک باسوتو کو گولی مار کر پوری کی تھی۔ اس باسوتو کی کھوپڑی میرے سامنے پڑی تھی۔ اس کا گوشت پوست مردار خور جانور کھا گئے تھے اور اُس کی کھوپڑی کسی لکڑبھگے نے گھسیٹ کر دھڑ سے نہ صرف الگ کردی تھی بلکہ کئی فٹ دور لے جا کر پھینک دی تھی۔
(پاسبان شب، رائیڈر ہیگرڈ)
—-
پہلی نظر میں وہ مجھے نہتا معلوم ہوا تھا، لیکن جب وہ آگے کی طرف جھکا تو مجھے اُس کے پستول کی جھلک نظر آگئی جو اُس کی بائیں بغل کے نیچے لٹک رہا تھا۔ اسے ختم کردینے کا اِس سے بہتر موقع مل ہی نہیں سکتا تھا۔ میرا ہاتھ بے اختیار اپنے پستول کی طرف رینگ گیا۔ دفعتاً ٹیلے کی جھاڑیوں سے چند پرندے پھڑپھڑا کر اُڑے۔ میں ٹھٹک گیا۔ پہلے بھی ایک دفعہ ایسا ہی ہوا تھا، لیکن میں نے یوں گھبرا کر جھاڑیوں میں سے اُڑتے پرندوں کی طرف دھیان نہیں دیا تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا تھا کہ مشین گن نے میرے نصف سے زیادہ آدمیوں کو بھون کر رکھ دیا تھا۔ میں نے فوراً ہی ارادہ بدل دیا۔
(قاصد جاں، رائیڈر ہیگرڈ)
****************************************************************************************************************************************
طویل کہانیوں کا انتخاب سڈنی شیلڈن کے دو یادگار ناول، عبدالقیوم شاد کی ذہن سے چپک جانے والی وہ طویل تحریر جس کے مطالعے کے بعد زندگی کی ڈگر کے تعین میں سہولت ممکن ہے ” فلم ناول“ میں ایک ایسے ناول One of our Dinosaurs Is Missing کی تلخیص جسے آپ مدتوں یاد رکھیں گے، لندن پر آدم خور چوہوں کے حملے کی داستان۔
—-
وہ چوہے تھے۔ خوفناک اور حیران کن بات یہ تھی کہ وہ عام چوہوں سے زیادہ بڑے تھے۔ ُاُن میں سے کچھ تو بلی جیسی جسامت کے مالک تھے اور اگر ہنری کی آنکھیں اندھیرے میں دھوکا نہیں کھا رہی تھیں تو وہ چوہے چھوٹی نسل کے کتوں کے برابر بھی تھے۔ وہ مسلسل اُس کے جسم کو نوچ رہے تھے۔ ہنری اپنے پیروں کو حرکت دے سکتا تھا مگر اس سے کچھ حاصل نہ ہوتا۔ تمام چوہے اُس کے پیروں کی پہنچ سے باہر تھے۔ اپنے تیز دانتوں کی مدد سے وہ اُس کے ہاتھوں کا گوشت نوچ نوچ کر کھا رہے تھے۔
(شہر اجل)
—
میاں بدرالدین نے فرشتوں کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے کہا۔ ”میری آپ سے ایک التجا ہے۔ خدا کے لیے مجھے ان جھوٹے اور ریا کار لوگوں سے کہیں دُور لے چلیں۔ ان کی باتیں مجھے بہت دُکھ پہنچا رہی ہیں۔“
”نہیں، یہ نہیں ہوسکتا۔ تمھیں یہ سب کچھ سننا پڑے گا۔“
”اگر یہ نہیں ہوسکتا تو پھر مجھے ایک دن کی مہلت دے دیں۔“ میاں بدرالدین نے کہا۔ ”صرف ایک دن کے لیے دنیا میں واپس بھیج دیں تاکہ میں ان لوگوں کو بتا سکوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو وہ کہہ رہے ہیں۔“
”تمھاری مہلت ختم ہوچکی ہے۔“ فرشتے نے کہا اور اس کا آتشیں گرز ایک بار پھر حرکت میں آگیا۔
(متاع غرور)
—-
جیمی ابھی لڑکا ہی تھا جب اس نے پہلی بار اپنے وطن میں جنوبی افریقہ کے ہیروں کے بارے میں سنا اور وہ سخت بے چین ہوگیا۔دنیا کا سب سے بڑا ہیرا جنوبی افریقہ کے اس علاقے میں ریت پر پڑا ہوا پایا گیا تھا اور جلد ہی اس کی خبر ساری دنیا میں پھیل گئی اور یہ کہا جانے لگا کہ یہ پورا علاقہ نادرو نایاب قسم کے ہیروں سے بھرا ہوا ہے۔ لوگ دنیا کے گوشے گوشے سے اس علاقے میں پہنچنا شروع ہوگئے۔
(کھلاڑی، سڈںی شیلڈن)
—–
کوپر نے سپاٹ لہجے میں کہا۔”کیا پولیس والوں نے سامان کی تلاشی لی تھی؟“
”یہ امریکن ۔یہ لعنتی امریکن۔یہ اپنے آپ کو سمجھتا کیا ہے؟“ آندرے نے دل ہی دل میں کوپر کو دو چار گالیاں دیں۔ ”میں تمہیں بتاتا ہوں کہ انہوں نے سارے سامان کی تلاشی لی تھی۔ اس کے علاوہ پوری ٹرین کو چھان مارا۔“
”کیا پولیس نے مسز لاڈی فونائی کے سامان کی بھی تلاشی لی تھی؟“ کوپر نے پوچھا۔
”صرف اس بکس کی جس میں وہ زیورات رکھتی تھی۔“ آندرے نے کہا۔”وہ تو خود چوری کی شکار ہوئی تھی ۔اس کے سامان کی تلاشی لینے کی کیا ضرورت تھی؟“
”کیونکہ منطقی طور پر وہی واحد جگہ تھی جہاں چور چوری کا مال چھپا سکتا تھا۔“کوپر نے سرد لہجے میں کہا۔
(امید سحر، سڈنی شیلڈن)
——-
”پروا نہیں ہے۔ میں ہوٹر بجاتی ہوں۔ لوگ اس کی آواز سن کر ہمیںخود ہی راستہ دے دیں گے۔“ اس نے کہا اور سر پر لٹکتی ہوئی زنجیر کھینچ دی۔ اس زنجیر کا تعلق ایک بھونپو سے تھا۔ زنجیر کھینچتے ہی وہ دو بار مہیب آواز میں گونجا۔ ”باﺅں باﺅں۔“
ایملی اور سوسان اُچھل پڑیں۔
ایملی بھونپو بجاتی ہوئی مین روڈ کے ٹریفک میں داخل ہوگئی۔ اُسے یقین تھا کہ لوگ اس بھونپو اور اسٹم ویگن کا نوٹس ضرور لیں گے۔ لوگ واقعی چونک چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگے ویسے بھی اس پر قبل از تاریخ کا ایک دیوقامت جانور رکھا تھا، جو مسلسل اپنی گردن اور دُم ہلا رہا تھا۔ وہ اسے کیسے نظرانداز کرسکتے تھے
Digest kahaniyan Vol 4
***************************************************************************************************************************************************
Digest kahaniyan Vol 3