MERA DAGHISTAN -میرا داغستان
Author: RASUL HAMZATOF
مصنف:
’’میرا داغستان‘‘ مشہور آوار شاعر رسول حمزاتوف کی نثر کی پہلی کتاب ہے۔ داغستان، حمزاتوف کا محبوب ترین موضوع ہے۔ لکھتے ہیں: ’’داغستان میری ماں ہے، میری محبّت ہے، میرا عہد ہے، میری منت و سماجت ہے اور میری دُعا ہے۔ داغستان تُو اور صرف تُو ہی وہ موضوع ہے جو میری کتابوں کا خاص تصوّر اور میری ساری زندگی کا سرمایہ ہے۔‘‘ ’’میرا داغستان‘‘ زندگی اور آرٹ کے بارے میں انوکھے خیالات کا اظہار کرتی ہے۔ اس کو آزاد اور حکیمانہ مشرقی انداز میں لکھا گیا ہے؛ یہ نظموں سے آراستہ ہے اور کہانیوں سے بھرپور! کبھی یہ شوخی کا اظہار کرتی ہے، کبھی اس سے رنج اور اُداسی ٹپکنے لگتی ہے۔قفقاز کے بلند پہاڑوں میں داغستان کے پہاڑی لوگ آباد ہیں۔ اس علاقے میں درجنوں قومیتوں کے لوگ بستے ہیں جن میں آوار قوم کے لوگ بھی ہیں۔ یہیں، قفقاز کے ایک آوار گاؤں، ’’سدا‘‘ میں 1923ء میں داغستان کے عوامی شاعر حمزہ سداسا کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جس کا نام رسول رکھا گیا۔ رسول کا مطلب ہے پیغامبر اور رسول حمزاتوف داغستان کے پیغامبر ثابت ہوئے جنھوں نے اپنے علاقے اور لوگوں کے حالات زمین کے دُور دراز گوشوں تک پہنچائے ہیں۔ رسول نے گیارہ سال کی عمر میں اپنی پہلی نظم کہی۔ سکول ختم کرنے کے بعد ماسکو کے ادبی انسٹیٹیوٹ میں تعلیم حاصل کی اور اپنے وطن واپس آکر داغستان کا مقبول ترین شاعر بن گیا۔ رسول حمزاتوف کی کتاب ’’میرا داغستان‘‘ اور شاعری کے کئی مجموعے بہت سی زبانوں میں ترجمہ کیے گئے ہیں۔ 3نومبر 2003ء کو انتقال کیا۔
مترجم:
ڈاکٹر اجمل اجملی اُردو کے ترقی پسند شاعر، مترجم اور مدیر تھے۔ آپ الٰہ آباد کے ایک ادبی اور متصوفانہ گھرانے میں یکم مارچ 1935ء کو پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولانا سیّد احمد اجملی بھی صاحبِ قلم تھے اور خانقاہ اجملیہ کے سجادہ نشین اور صوفی منش انسان تھے۔ اجمل اجملی کی ابتدائی تعلیم روایتی مشرقی انداز میں گھر پر ہی اُردو، عربی اور فارسی کی تعلیم سے شروع ہوئی۔ بعدازاں 1955ء میں بی اے، 1957ء میں ایم اے (اُردو) اور 1964ء میں ڈی فل کی ڈگریاں حاصل کیں۔ آپ نے پہلی غزل 1947ء میں لکھی تھی جو مجلہ دستور، کانپور میں شائع ہوئی۔ 1950ء میں پہلا مضمون ’’یوپی میں اُردو کا مسئلہ‘‘ مجلہ سیاست جدید، کانپور میں شائع ہوا تھا۔برصغیر کی ہندو- مسلم فرقہ واریت سے دلبرداشتہ ہوکر آپ کمیونزم کی جانب مائل ہو گئے اور 1964ء میں سوویت یونین انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ کے مجلے ’’سوویت دیس‘‘ سے وابستہ ہوئے جس کی ادارت کے فرائض 1990ء تک نبھاتے رہے۔ آپ ایک لمبے عرصے تک ترقی پسند تحریک کے فعال رکن رہے۔آپ کا واحد شعری مجموعہ سفرزاد کے نام سے 1990ء میں چھپا جس پر آپ کو یوپی اُردو اکادمی کی جانب سے ایوارڈ بھی دیا گیا۔ شاعری کے علاوہ آپ نے دو کتابیں، ’’اُردو سے ہندوؤں کا تعلق‘‘ اور ’’شاعرِ آتش نوا: بنگالی شاعر قاضی نذرالاسلام کی شاعری اور سوانح‘‘ کے نام سے بھی لکھیں۔ مضامین کا مجموعہ ’’اظہارِ خیال‘‘ کے نام سے چھپا۔ آپ ایک منجھے ہوئے مترجم بھی تھے۔ آپ کے اہم تراجم میں میرا داغستان ، نقوشِ لینن، ذکرِ میر (ہندی)، جامِ جہاں نما، ایشیائی قوموں کے خلاف استعماری یلغار کے ترجمے شامل ہیں۔ 6 اَگست 1993ء کو دہلی میں انتقال کیا۔
Reviews
There are no reviews yet.