SAFARNAMA MAQBOOZA HINDUSTAN
سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان
Author: SYED ANEES SHAH JILANI
Tag: RASHID ASHRAF
”سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان” 1993 ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کتاب کو بہت زیادہ پذیرائی اس لیے نہ مل سکی کہ یہ قارئین کی اکثریت تک پہنچ ہی نہ سکی تھی۔ اشاعت کے بعد رئیس امروہوی اور انیس شاہ جیلانی کے مابین کتاب کے ‘نزاعی‘ معاملات پر مراسلت کا آغاز ہوا۔ انیس صاحب چراغ پا اور ادھر رئیس صاحب کا لہجہ ابتدا میں مدافعانہ۔ مگر ایک موقع پر انہوں نے اپنے موقف کا کھل کر اظہار کیا۔بعد ازاں اس مراسلت میں شکیل عادل زادہ بھی شامل ہوئے۔انیس مرحوم وصیت کرگئے تھے کہ یہ مراسلت علاحدہ سے کتابی شکل میں ”محاکمہ‘ ‘ کے نام سے شائع کی جائے۔ ڈاکٹر ابو الحسن نے راقم کو دونوں محاکموں کی نقل فراہم کی اور طے پایا کہ اسے یک جا کرکے ”سفرنامہ مقبوضہ ہندوستان” کے ہمراہ شائع کیا جائے۔ ادھر رئیس امروہوی نے بھی زیر تذکرہ مراسلت کی اشاعت کے بارے میں ایک خط (محاکمے میں شامل ہے) میں نہایت وضاحت سے کہہ دیا تھا کہ:
” سفر نامہ ضرور شائع کریں مگر میر ی تشریحا ت نہیں۔ انہیں اکیسویں صدی کے لیے محفوظ کرلیں۔”
ـــ
انیس صاحب ہند میں گویا پاکستان کے سفیر ہی تو تھے۔ اور کیا خوب تھے۔ اللہ ان کی بخشش کرے، کتنے آسان لفظوں میں اپنا مدعا بیان کرگئے۔ ایک نمونہ ملاحظہ تو کیجئے اور موجودہ (2019ئ ) ماحول میں اسے دیکھئے:
”رام کرشن مضطر بھی مجھے شدھ کرنے میں شامل ہوگئے۔ اپنی بیاض میں اپنی نعت گوئی کے نمونے دکھائے۔ مرید بھی کسی مسلمان کے ہیں۔ یہی ہونا تھا۔ پیرو مرشد تو مسلمان ہی ہوگا۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی۔ فکر صاحب خاموش۔ ایمااْن کا بھی یہی کہ اس مسلے کے دماغ میں پاکستان سے بغاوت اور اکھنڈ بھارت کے جراثیم ذرا موٹے موٹے ڈال دو۔ میں چپکا سنتا رہا اور پوری ”تبلیغ” کا جواب فکر تونسوی کے توسط اور کارڈ سے مختصراً یہ دیا اپنے کمار سے کہئے گا بات صرف اتنی سی ہے صدق دل سے پاکستان کو تسلیم کرلو۔ ایک بڑے خلجان سے نکل جاؤ گے آسودہ خاطر جیوگے۔
ہندوستانی عوام اور اشاعتی ادارے پاکستان کے غم میں گھلے جاتے ہیں۔ مسلمان تو ایران میں ہے ،عراق میں ہے، افغانستان میں ہے، چین روس امریکہ میں ہے لیکن پاکستان ہے کہ نگاہ برہمن میں کھٹک رہا ہے۔ وہ اپنی ہی آگ میں سلگ رہا ہے۔ جھلس رہا ہے۔ پاکستان بن کیسے گیا۔ پاکستان ہے کیوں۔ یہ وہ مالا ہے جسے ہندوستانی صحافیوں کی اکثریت جپ رہی ہے۔ اسی میں پاکستان کے استحکام اور بقا کا راز ہم سمجھ سکیں تو پنہاں بھی ہے عیاں بھی ہے۔ خدا پاکستانیوں کو اے کاش اس کی توفیق ارزاں کردے۔
پاکستان مٹنے کے لیے وجود میں نہیں آیا۔وہ باقی ہے وہ باقی رہے گا تا قیامت ان شائاللہ۔
٭
مسائل اتنے زیادہ اور پیچیدہ ہیں کہ آج اگر ہندوستان ہم پر چڑھ دوڑے، خدانخواستہ ہمیں دبوچ بھی لے تو اس دھینگا مشتی میں زیادہ سے زیادہ ایک کروڑ پاکستانی مرمٹے گا اور وہ جو سات کروڑ بچ رہے گا اس کا وبال پالنے کی ہمت اب نہ ساس میں ہے نہ بہو میں۔ اندرا گاندھی بوڑھی ہوچکی ہیں۔مانیکا اپنے پیر جما نہیں پاتیں۔ وہ یہ ضرور چاہتے ہیں پاکستان طفیلی بن کر رہے۔ آپ نے دیکھا نہیں سنا نہیں صدر ضیائ الحق کا استقبال بڑے اہتمام سے کیا گیا۔ہوائی جہاز کی سیڑھی سے سرخ قالین پر اتارا۔ہاتھوں ہاتھ قصر صدارت پہنچایا۔ ذیل سنگھ صاحب نے سب کی ترجمانی کردی۔ ہمیں پاکستان کی سلامتی مقصود ہے۔ پاکستان ہمارا بھائی ہے۔ ہمیں پاکستان کی حفاظت کرنا ہے۔ یعنی اگر رہنا ہے میاں تو اپنی کھال میں رہو۔ اپنے ہوشوں میں جیو۔ الگ رہو لیکن رہو چھوٹے بھائی کی طرح۔ آنکھیں دکھانا چھوڑو۔ برابر ہی کا وہم بھی دل سے نکالو۔ یہ کروگے تو پھر سوچیں گے۔ سوچیں گے کیا بس مارے جا?گے۔ اعلیٰ قیادت کے تصور یہی ہیں
Reviews
There are no reviews yet.